پاکستان میں خواجہ سراوں کے خلاف معاشرتی زیادتی کی خبر نئی بات نہیں ہے، الیشہ کیس میں ایک زخمی مریض کو شناخت کی بنا پر معالجے کی سہولت نہیں فراہم کی گئی اور وہ دم توڑ گئی۔ معاشرتی استحصال سے لے کر جنسی، اقتصادی اور قانونی استحصال بھی پاکستانی خواجہ سراوں کی زندگی میں معمول ہیں۔ مگر۔ ء2008 میں عدالت عظمی نے انہیں شناخت کا حق دیتے ہوئے خواجہ سرا شہریوں کے لیے شناختی کارڈ جاری کرنے کا حکم دیا۔ مگر اس کے باوجود ان کی زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی۔
اس سب کے درمیاں پمز ہسپتال نے خواجہ سرا مریضوں کے لیے الگ کمرے متعین کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اکثر سماجی کارکنان اور سیاسی شخصیات نے اس قدم کی موافقت میں خیالات کا اظہار کیا۔ بے شک یہ قدم خواجہ سرا مریضوں کی مشکلات میں کمی لائے گا اور ان کی طبی رسائی میں اضافہ کرے گا، مگر اس سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ یہ افراد ہم سے مختلف اور الگ ہیں۔ اس عمل سے ان کا حق خود شناخت مجروح ہوتا ہے۔ کچھ خواجہ سرا اپنے آپ کو عورت۔ اور کچھ مرد تسلیم کرتے ہیں اور ان کو اس کا حق ہونا چاہیئے۔ ان کو دوسروں سے الگ کرنا نہ صرف اس کے خلاف ہے بلکہ اس سے عام لوگوں کا ان سے کوئی تعامل قائم نہیں ہوتا جس سے ایک عدم اعتماد اور ایسا احساس پیدا ہوتا ہے جس سے لوگ انہیں مختلف سمجھتے ہیں۔