کہتے ہیں کہ سینیما کسی معاشرے کی معاشرتی اقدار کا عکاس اور محافظ ہوتا ہے۔ اس آلے کا استعمال کر کے بڑے ملک اپنی رعایا میں ایک خاص قسم کا اناز تفکر پیدا کرتے ہیں جو کے صدیوں چلتا ہے۔بدقسمتی سے ایسا ملک جسے آزاد ہوئے ایک صدی بھی نہ
گزری ہو، کسی معاشرتی قدر یا رواج کو اپنے ملک کی پیداوار قرار نہیں دے سکتا۔ اس سب کے واسطے اس ملک کی طبعی زندگی ایک تہزیب کے پیدا کرنے کے لیئے موزوں ہونی چاہیئے کہ تبھی ایک معاشرہ پروان چڑھے گا جو باقی معاشروں سے مختلف ہو گا!
سینیما ان زرائع میں سے ایک ہے جو ایک معاشرے کی زہنی و فکری طربیعت کے لیئے وہ موزوں حالات پیدا کرتا ہے جس کی تپش سے معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔ معاشرے کی اسی فکری تربیعت کے لیئے اقوام دولت خرچ کرتی ہے
ایک وقت تھا جب خاندان کے سب افراد ایک ہی چھت تلے بیٹھ کر اپنے فارغ اوقات میں سلور اسکرین پہ آنے والے ڈرامے دیکھا کرتے تھے۔ پھر اسکا تعلق کسی بھی عمر یا طبقے سے ہو۔ وقت نے کروٹ لی اور جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ میڈیا انڈسٹری میں بھی جدت آئی۔ اصلاحی پروگرام ترتیب دیئے جانے کی بجائے دولت انکا بنیادی مقصد حیات بن گیا
تفریح کے نام پہ بے جا روی کا سبق دیتے یہ نام نہاد ادارے آج قوم کو بحیثیت مجموعی تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ خوداری و خودمختاری سکھانے کی بجائے انہیں چند ٹکوں کے عوض گروی رکھوانے کا یہ رویہ ختم کیا جانا ازحد ضروری ہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ تفریح برائے اصلاح کی سوچ کو آنے والی نسلوں میں عام کیا جائے
!وائے قسمت! کارواں کے دل سے سود ضیاں جاتا رہا