پاکستانی سینماء گھروں کی بحالی ہر پاکستانی کا خواب ہے۔ 1970 سے 1980 تک کا دور پاکستانی سینما گھروں کے لیے سنہرا دور تھا۔ تب ہر سینما کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا۔ پھر ایسا وقت بھی آیا کہ ہمارے سینما بلکل بند ہو گئے اود لوگوں نے تفریح کے لیے سینما کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔
لیکن اب ایک بار پھر پاکستانی سینماء گھروں نے ترقی کا راستہ اپنایا ہے پھر بھی اس عروج پر نہیں پہنچے جس پر کبھی ہوتے تھے اس میں وقت لگے گا۔ پاکستان کی کافی عرصے بعد کامیاب ہونے والی فلم “پنجاب نہیں جاوءں گی” آئی تھی۔ اس کے کامیاب ہونے کی کافی وجوہات تھیں جس میں اس کی کاسٹ اس کی سٹوری لائن وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے بعد اور بھی کامیاب فلمیں آئیں۔ پاکستان میں ابھی پروڈکشن ہاوس کی کمی ہے جو کہ وقت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اور فلموں کا معیار بہتر ہو رہا ہے۔

پاکستان میں اینیمیٹڈ فلمز کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پچھلے دنوں میں بچوں کی تفریح کے لیے “ڈونکی کنگ” اینیمیٹڈ فلم بنائ گئی جس کو کافی حد تک سراہا گیا اور کامیابیاں بھی سمیٹی۔اس سے پاکستان کے ائ ٹی کے لوگوں کو بھی اپنی صلاحیت منوانے کا موقعہ ملا۔ پاکستان کی فلم “کیک” نے برطانیہ میں بہترین ایشیائی ہدایتکار کا اعتزاز جیتا جس سے واقعی پتا لگتا ہے کہ ہمارا فلموں کا سفر ایک بار پھر بحالی کی طرف گامزن ہو گیا ہے اور ہم انٹر نیشنل لیول کی فلم بھی بنا سکتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک اپنی فلموں کے ذریعے اپنی ثقافت ظاہر کرتے ہیں اور وہ اس کو بہترین پلیٹ فارم سمجھتے ہیں۔ ہم ادھر غلطی پر ہیں کہ ہم اندیا کی نقل کرتے ان کا ماحول زیادہ دکھاتے بنسبت پاکستان کے!!
شراکت دار: صائمہ نعیم
پاکستانی سینیما کے بارے میں مزید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں: پاکستانی سینیما