ساغر صدیقی 1928 میں ہندوستان کے شہرانبالہ میں پیدا ہوئے اور اصل نام محمد اختر تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم حبیب حسن سے پائی اور اسی عمر میں ان میں شاعری کا ذوق پیدا ہوا۔
ء1947 میں تقسیم ہند کے موقع پر ان کی عمر 19 سال تھی۔ اپنی مختصر خودنویس میں انہوں نے ذکر کیا کہ ان کا کوئی بھائی بہن نہیں تھا مگر والدین کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔
آزادی کے بعد لاہور آ گئے اور پھر ان کی زندگی درویش صفت ہو گئی۔ ساغر کا کوئی گھر نہیں تھا وہ لاہور کی معروف مال روڈ کے کنارے بیٹھے شعر لکھتے رہتے تھے۔ جیتے جی ان کو کوئی پذیرائی نہیں ملی اور غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور رہے۔ ساغر نے اکثر اپنی غزلیات روٹیوں کے عوض بیچ دیں اور ان کو خریدنے والوں نے اپنے نام سے شائع کر کے خوب داد سمیٹی۔
ساغر کی زندگی میں ان کا صرف ایک دوست تھا، ایک آوارہ کالا کتا۔ آخر کار ساغر کو مورفین کی لت لگ گئی اور اسی کی وجہ سے 1974 میں مال روڈ کے کنارے انتقال کر گئے۔ اسی سڑک پر ایک سال بعد ساغر کا واحد دوست بھی اس دنیا سے چل بسا۔
وفات کے بعد ساغر کی شاعری کو بے پناہ مقبولیت ملی اور نوجوانوں میں خاص طور پر ان کے پرستار موجود ہیں۔
1۔
لوگ جس بزم میں آتے ہیں ستارے لے کر
ہم اسی بزم میں با دیدہ نم آتے ہیں
2۔
جل رہا ہے چراغ تنہائی
تو سن زندگی کہاں آئی
3۔
پائل چھنک رہی ہے نگار خیال کی
کچھ اہتمام رقص کرو! میں نشے میں ہوں

4۔
میں تری یاد کو یوں دل میں لئیے پھرتا ہوں
جیسے فرہاد نے سینے سے لگائے پتھر
5۔
اٹھا کر چوم لیں ہیں چند مرجھائی ہوئی کلیاں
نہ تم آئے تو یوں جشن بہاراں کر لیا میں نے
6۔
کسی کی اک تبسم پر اساس زندگی رکھ لی
شراروں کو نشیمن کا نگہبان کر لیا میں نے