سو دن دو دورے

اگلے ہفتے وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔ اقتدار میں آئے ابھی پی ٹی آئی کو سو دن بھی نہیں ہوئے اور یہ عمران خان کا سعودی عرب کا اس دورانئے میں دوسرا دورہ ہو گا۔ پی ٹی آئی کی حکومت آئی ایم ایف کا متبادل “دوست ممالک” کو قرار دے چکی ہے، جس سے ان کی مراد سعودی عرب اور چین ہیں۔ اس بڑھتی قربت کا پاکستان کی خارجہ حکمت عملی پر کیا اثر ہوگا؟

یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ سعودی عرب سے قربت کا مطلب ہے ایران سے دوری، مگر کیا ان حالات میں پاکستان ایران کے ساتھ برے تعلقات برداشت کر سکتا ہے؟ پاک ایران سرحد پر حالیہ کشیدگی میں کئی ایرانی فوجی اغوا ہوئے اور ایران کا مسلسل کہنا ہے کہ پاکستان سرحد کو محفوظ کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ تعلقات بگڑنے کی صورت میں یہ سرحد اور بھی حساس نوعیت اختیار کر جائے گی۔ تمام مشرقی سرحد پہلے ہی بھاری نفری کی حامل ہے اور پاکستان افغان سرحد کو محفوظ کرنے میں پہلے ہی وافر رقم خرچ کر رہا ہے۔ ایسے میں ایرانی سرحد پر دوستانہ ماحول رکھنا بہت ضروری ہے۔

حوثی باغی، یمن جنگ کا ایک گروہ

اس کے علاوہ یہ بھی سوال ہے کہ سعودی عرب ہمیں کوئی رقم دینے کی صورت میں ہمارے سے کیا توقع رکھے گا؟ ماضی میں سعودی عرب بار بار پاکستان سے یمن جنگ میں مدد مانگ چکا ہے۔ نواز دور میں پاکستان یمن میں فوجی بھیجنے کے بہت قریب تھا۔ مگر آج کے معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پی ٹی آئی آئی حکومت ایم ایف نہ جانے کے لیے بے تاب ہے اور سعودی عرب سے مدد لے سکتی ہے۔ اور یمن جنگ میں پاکستان کی مداخلت ملک کے لیے بہت منفی ہو گی۔ اول تو یہ کہ یمن جنگ کا پس منظر شیعہ سنی تصادم ہے، اور اس جنگ میں مذہبی احساسات اہم ہیں۔ ماضی کا پاکستان مذہبی و فرقہ وارانہ نفرت کا شکار ہو چکا ہے اور بھاری نقصان اٹھا چکا ہے۔

مقتول سعودی صحافی: جمال خاشقجي۔ اطلاعات کے مطابق سعودی ولی عہد نے سعودی عرب پر تنقید پر قتل کروایا

اس کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کو ایک ایسے ملک کے ساتھ اس قسم کی قربت رکھنی چاہیے جو انسانی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی کرتا ہے؟ جو اقلیتوں پر جبر و تشدد کرتا ہے اور جس ریاست میں مذہبی آزادی کا کوئی تصور نہیں ہے؟ جمال خاشقجي قتل کیس میں واضح ہے کہ محمد بن سلمان کس قسم کی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اس ماحول میں سعودی عرب کے رحم و کرم پر رہنا شاید پاکستان کو بھاری پڑ سکتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *