اردو اور مذہبی ادب کا تعلق بہت گہرا ہے، اردو عربی اور فارسی کے بعد اسلامی تحریرات کی سب سے زیادہ تعداد رکھنے والی زبان ہے۔ اکثر معروف ادبی کاموں میں اردو کی اس تاریخ کی جھلک نظر آتی ہے، جیسے اقبال کی شاعری میں مذہبی استعارات و منظرکشی یا بانو قدسیہ کی “راجا گدھ” میں مذہبی اخلاقیات کا پس منظر۔ مگر دور جدید کا فلسفہ و سیاسی تحریکیں اردو ادب میں گمنام ہے۔ اس کا کچھ قصور ماضی کی حکومت کا بھی ہے، جس نے سیاسی مقاصد کے لیے ایک خاص طور کے ادب کو فروغ دیا۔
ضیا دور میں مذہبی ادیبوں کو ریاستی پشت پناہی حاصل ہونے کی وجہ سے ایک مخصوص قسم کا ادب باقی تمام تحریرات پر غالب آ گیا۔ ادب میں معاشرتی رویے بدلنے کی طاقت ہوتی ہے۔ جب ریاست نے نصاب سے لے کر ٹی وی تک مذہبی ادب پڑھانا شروع کیا تو ترقی پسند ادب کے قارئین میں بھی کمی واقعہ ہوئی۔ اب اردو میں اسی قسم کا ادب مشہور ہوتا ہے، مثلا عمیرہ احمد کا “پیر کامل” اور قدرت اللہ شہاب کا “شہاب نامہ”۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو بولنے اور پڑھنے والے افراد کو صرف ایک سوچ اور نظریے سے متعلق ادب تک رسائی حاصل ہے۔ ارود میں سیاسی نظریات پر مواد موجود نہیں ہے، لوگوں کو نہیں معلوم اشتراکی ریاست کیا ہوتی ہے، اجتماعیاتی نظام کیا ہے، اور سرمایہ دارانہ اور پدرشاہی نظام پر کیا تنقید ہے، اور نسوانیت کیا شے ہے۔
نسوانیت ایک نظریہ ہے جو کئی شعبہ جات میں اثر انداز ہو چکا ہے۔ اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ معاشرے کا نظام پدرشاہانہ (لفظ پدرشاہی دو الفاظ کا مرکب ہے، “پدر” یعنی باپ اور “شاہی” لفظ طاقت یا بااختیار ہونے کی علامت ہے۔) اور خواتین کو معاشرے میں مکمل آزادی اور اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ مسلہ یہ نہیں کہ اردو میں نسوانیتی ادب موجود نہیں، مسلہ یہ ہے کہ اس ادب کو وہ مقبولیت اور پذیرائی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ قارئین ان نظریات سے واقف نہیں ہوتے۔
اردو شاعری کی روایت بہت پرانی ہے مگر اکثر نقاد کا اتفاق ہے کہ اردو شاعری میں لفظ “لڑکی” پہلی بار پروین شاکر کی شاعری میں آیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب نے بہت عرصے تک خواتین کے مسائل اور تجربات کو نظر انداز کیا۔ خدیجہ مستور کا ناول “انگن” اور عصمت چغتائی کی تحریرات نسوانی ادب کی بہترین مثال ہیں جو اس خطے کی خواتین کی زندگیوں کی عکاسی کرتی ہیں۔

پاکستان میں اب نسوانیت کی ایک لہر آئی ہے، اس کو اصل معنی میں موثر ہونے کے لیے دیرپا اثرات مرتب کرنے ہوں گے اور اس کے لیے ہمارے باہمی تخیل کو بدلنا پڑے گا۔ اس کام کے لیے بہترین طریقہ اس ادب کی روایت کو ایک بار پھر بیدار کرنا ہے۔