اقوامِ عالم کے حالات تقریباً 100 برس قبل نہایت خستہ حال تھے اور قومیت پرستی نے انسانی قدروں کو پامال کر رکھا تھا۔ جرمنی کے معروف حکمران ہٹلر کی بڑھتی ہوئی طاقت اور پھولتی پھلتی حکومت نے جرمن تخریب کاروں کو بہت حد تک مضبوط کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ پے در پے مختلف ریاستوں پر حملے کیا کرتے تھے اور انسانی حقوق کی پامالی میں کوئی کسر جانے نا دیتے تھے ۔
بہرحال جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد اقوامِ متحدہ کا قیام اس بات کی نوید سمجھا جا رہا تھا کے اب معاشرے میں امن کی ایک فضا قائم ہوگی اور دنیا اس بے بہا تباہی سے سبق لے کے مفاہمت کے راستے پر گامزن ہوگی مگر نو آبادیاتی نظام سے پہلے اور اس کے بعد بھی، مسائل میں متوّاقع کمی دیکھنے میں سامنے نہ آئی ۔
برطانیہ کے تسلّط سے آزاد ہونے کے بعد بہت سی ریاستیں معرض وجود میں آیں اور سب نے اپنے اپنے بیانیۓ ترتیب دئیے تاکے ریاست کے نظام کو فلاحی بنایا جاۓ۔ ان ریاستوں میں سے ایک ریاست کا نام پاکستان بھی تھا۔
اس ریاست کی بنیاد در حقیقت تو عوام کے حقوق کی پاسداری تھی مگر صد افسوس کے اِسی ریاست میں رہنے والے اور اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے اٙشخاص کی ایک طویل فہرست موجود ہے جس میں شامل افراد گمشدہ ہیں اور کہا جاتا ہے کے ریاستی اِدارے اس گمشدگی کے پسِ پشت ہیں ۔ اسکی ایک حالیہ مثال اِنسانی حقوق کی تنظیم سے وابستہ” رضا” ہے جو پچھلے کچھ عرصے سے غائب ہے اور اسی انداز سے اغوہ ہے جیسے ماضی میں سلمان حیدر یا وقاص گورایا تھے۔
مجہے قطن اس بات سے اختلاف نہیں کیوں کے ریاست بِلا جواز کسی شخص کے ساتھ زیادتی نہیں کرتی بلکہ مجھے حقیقتً مسلہ اس بات سے ہے کے عدلیہ کی موجودگی میں جب آئین اور قانون ایک ملزم، یہاں تک کے مجرم کو اپنا مقّدمہ لڑنے کے لئے وکیل فراہم کرتا ہے تو یہ پاکستانی ایجنسیز کس زُمرے میں بِلا کسی قانونی چارہ جوئی کے کسی شخص کو قتل کرنے ، اذیّت دینے یا پھر اغوہ کرنے کا حق رکھتی ہیں ؟
جب ریاست کا ایک آئین موجود ہے اور اسکی پاسداری ہر ایک پر لازم ہے تو پھر یہ ریاستی ادارے خود کو عدلیہ سے بالاتر کیوں سمجھتے ہیں
میرا آخری سوال بطورِ پاکستانی یہ ہے کے مجھے اور میرے جیسے تمام پاکستانیوں کو اس بات کا جواب دیا جاۓ کے احسان اللہ احسان کو تو وعدہ معاف گواہ بنانے کی بات کی جاتی ہے یا وہ مّلا حضرات جو اس ملک میں بیباکی سے طالبان کا دفعاع کرتے ہیں ، انکو نا تو نامعلوم افراد بنایا جاتا ہے،اور نا انکے خلاف کارروائی کی جاتی ہے ۔ اس کے بر عکس جو شخص نظم تحریر کرے ، کسی ادارے پر تنقید کرتے ھوے اپنا جمہوری حق اِستعمال کرے ، سماجی روابط کی ویب سائٹ پر آزادیئ اِظہار راۓ کرے، اُسے یا تو اغوا کر کے اذیتّوں کے مراحِل طے کرواۓ جاتے ہیں یا قتل کر دیا جاتا ہے ۔ کب تک اس ملک میں یہ سب چلتا رہے گا ؟
ضرورت اِس امر کی ہے کے وہ عوامی نمائندگان جنہیں ہم عوام نے، اپنے ووٹ کی طاقت سے ایوانوں تک پہنچایا ، اب یہ ذمےداری انہی کی ہے کے وہ اس مسلے کا حل نکالیں اور تمام گُمشدہ افراد کو باز یاب کروائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ باقاعدہ طور اس مسلۓ سے متّعلق قانون سازی عمل میں لائی جاۓ اور اس قانون پر فل فور عمل درامد بھی کیا جاۓ تا کہ اس مسلۓ سے فوراًہ نکلا جاۓ اور جمہوری اِقدار مضبوط ہوں۔ کیوں کے آزادی اظہار راۓ ہر ایک کا بنیادی حق ہے اور اس حق کو چھیننے والے سزا کے مُرتقب ہیں
